اس گھر میں جو ملازمہ کام کرتی تھی وہ بتاتی تھی کہ اس کا شوہر اتنا پیسہ کماتا تھا کہ یہ میاں بیوی گن نہیں سکتے تھے‘ شوہرپیسے لاتااور یہ تجوری میں رکھتی‘ اس عورت کے بارے میں مجھے بہت ہی تجسس ہوا کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟
(ممتاز عبدالحمید‘ کراچی)
محترم حکیم صاحب ! ایک بہت ہی اہم واقعہ ماہنامہ عبقری کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔یہ عورت ایک درگاہ پر بیٹھی بھیک مانگ رہی تھی۔ مجھے میرے درزی نے بتایا کہ یہ ایک معزز عورت تھی‘ اس کا اپنا گھر تھا‘ گاڑی تھی‘ گھر میں نوکر چاکر تھے‘ اس گھر میں جو ملازمہ کام کرتی تھی وہ بتاتی تھی کہ اس کا شوہر اتنا پیسہ کماتا تھا کہ یہ میاں بیوی گن نہیں سکتے تھے‘ شوہرپیسے لاتااور یہ تجوری میں رکھتی‘ اس عورت کے بارے میں مجھے بہت ہی تجسس ہوا کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟ کافی عرصے بعد پھر اس عورت کا ذکر ہوا تو ایک ہماری ایک رشتے دار خاتون نے بتایا کہ وہ عورت جو تھی اس میں تکبر بہت زیادہ تھا‘ ہر ایک کے سلام کا جواب تک نہیں دیتی تھی۔
اس غرور و تکبر کی وجہ سے اللہ پاک نے اس کو ایسا پکڑا کہ اس کا سب کچھ ختم ہوگیا‘ تباہ و برباد ہوگیا‘ گھر لٹ گیا‘ نیم پاگل ہوگئی اور آج مزاروں کے باہر بھیک مانگتی ہے اور مزید غربت کے اندھیروں میں ڈوبتی جارہی ہے۔ اف خدایا! میں بھی یہ سوچتا تھا کہ میرا رب بہت ہی زیادہ مہربان ہے اسے ایک دم غریب کیوں کردیا۔ آج میں نے ایک تصوف کی کتاب میں پڑھا صوفیا کے سرخیل حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سےجب بغداد کے گورنر ابوبکر شبلی نے اہل تصوف کے گروہ میں داخل ہونے کی درخواست کی تو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کیا آپ تصوف کے تقاضوں کو پورا کرسکیں گے ابوبکر شبلی نے کہا میں اس کیلئے تیار ہوں۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کیونکہ تم بغداد کے گورنر رہ چکے ہو اوراس گورنری کا تکبر تمہارے اندر موجود ہے جب تک یہ تکبر نکل نہیں جاتا تم تصوف کے علوم نہیں سیکھ سکتے اور اس تکبر کو ختم کرنے کا پہلا سبق یہ ہے کہ تمہیں بغداد کی گلیوں میں بھیک مانگنا پڑے گی اور پھر اہل بغداد نے دیکھا کہ شبلی نے بغداد کی گلیوں میں بھیک مانگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شرک‘ حسد‘ غیبت‘ تکبر اور جھوٹ سے بچالے۔آج ان خباثتوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ اسی جھوٹ‘ غیبت‘ چغلی‘ حسد اور تکبر نے ہمارے دلوں کے چین و سکون کوختم کردیا ہے۔خدارا ان کبیرہ گناہوں سے خود بھی بچئے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچائیے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ آج ہم خود ہی اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کہاں جارہے ہیں جنت کی طرف یا۔۔۔۔۔
ایک دکھی ماں کی کہانی
(پوشیدہ)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میں ایک بڑا دکھ آپ کے سامنے پیش کرنے جارہی ہوں میرے بڑے بول نے مجھے آج یہ دن دکھایا ہے۔حکیم صاحب میرا بڑا بیٹا جب سات سال کا تھا تومیں نے اپنے بھائی کے بیٹے کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے بڑےغرور و تکبر سے کہا یہ تو ان پڑھ رہے گا جبکہ میں اپنے بیٹے کو کمشنر بنواؤں گی۔ بس اُس دن کے بعد سے میں نے بڑے شوق سےا پنے بیٹے کو قرآن کریم حفظ کروانا شروع کردیا۔23 ویں پارے کے بعد اس نے پڑھنا چھوڑ دیا‘ بڑی مشکلوں سے اس کو قرآن مجید مکمل کروایا مگر اس دن سے لے کر آج تک اس نے کبھی قرآن پاک کھول کر نہیں دیکھا اور نہ دنیاوی تعلیم کی طرف توجہ دی۔ تین دفعہ میٹرک میں فیل ہوا۔ حکیم صاحب میرے بیٹے کی سترہ سالہ جوانی کی بدتمیزی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو کہتا ہے کہ میری ماں تو مرچکی ہے‘ مجھے ننگی گالیاں نکالتا ہے‘ سگریٹ پیتا ہے‘ نشے کرتا ہے‘ ساری ساری رات گھر سے باہر رہتا ہے‘ اس کا باپ مجھے اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں حالانکہ میں نے کبھی بھی اپنے بیٹے کو فالتو ایک روپیہ بھی نہیں دیا‘ اس کی ہرجائز ضرورت کو اس کے باپ نے پورا کیا۔ میں اپنے کسی عزیز کے ہاں گئی تو وہاں مجھے ماہنامہ عبقری ملا اس دن کے بعد مجھے کچھ سکون ملا کہ اب میں اپنا مسئلہ تحریر کرسکتی ہوں‘ محترم حکیم صاحب! ابھی ابھی میرا بیٹا مجھے گالیاں نکال کر باہر گیا ہے اور میں رو رہی ہوں اور خط لکھ رہی ہوں۔ میں بڑی سخت پریشان ہوں آپ کے عبقری رسالے میں پڑھا تھا کہ کسی بڑے سے بڑے پہلوان کو صرف اس کی اولاد ہی بچھاڑ دینے کیلئے کافی ہے۔ دس سال پہلے والے بول جو میں نے تکبر اور غرور میں کہے تو جب بھی یاد آتے ہیں تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ میری تمام ماؤں سے گزارش ہے کبھی بھی بڑے بول منہ سے مت نکالیں ایسا نہ ہو کہ میرے بچے کی طرح کسی اور بچےکی زندگی بھی بربادنہ ہوجائے۔
کسی کو حقیر نہ جانو۔۔۔
(محمد آصف محمود‘ کنڈیارو)
ہمارے رشتہ داروں میں ایک شادی ہوئی‘ جوعورت بیاہ کر آئی وہ اپنے آپ کو بہت زیادہ خوبصورت اور ذہین سمجھتی تھی اور کسی کو بھی زیادہ اہمیت نہ دینا اس کا مزاج تھا ہر ایک میں کوئی نہ کوئی نقص نکالنا اور اعتراض کرنے والا کبھی سکھی نہیں رہتا۔ خیر وہ عورت اپنے میکے گئی ہوئی تھی ان کے گھر کے برابر میں جو لوگ رہتے تھے وہ بیچارے غریب لوگ تھے ان کے بچے وہ دماغی طور پر کچھ کمزور تھے مگر چلتے پھرتے کھیلتے بالکل ٹھیک تھے بس تھوڑی سی سمجھ کم تھی‘ایک دن وہ بچے اپنی چھت پر کھیل رہے تھے یہ عورت اپنے گھر کے صحن میں تھی کہ اچانک ان بچوں پر اس کی نظر پڑی اوران کو بڑے غرور سے مخاطب ہوکر بولی کہ تمہارے گھر میں کوئی ٹھیک بھی ہے یا سارے ہی پاگل ہو‘ بس اس عورت کا یہ کہنا ہی اس کیلئے بربادی کا پیغام لے آیا‘ وہ بچے تو اتر کر چلے گئے لیکن قدرت کا نظام حرکت میں آگیا‘ اس عورت کی کچھ عرصے بعد بیٹی ہوئی وہ بالکل ابنارمل ہوئی‘ نہ اٹھ سکے‘ نہ چل سکے‘ نہ ہل سکے۔ آج وہ لڑکی پندرہ سال کی ہے اور ویسے کی ویسے ہی ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ کسی کو حقیر نہ جانو اور زبان سوچ سمجھ کر استعمال کرو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں